Sunday 14 August 2016

تحریک قیام پاکستان میں اہلیان کوہسار کا حصہ
1937 تا 14 اگست 1947

تحقیق و تحریر
 محمد عبیداللہ علوی
بلاگر، مورخ، انتھروپالوجسٹ و صحافی
*****************************
18 جنوری 1937 کو متحدہ ہندوستان کی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوئے، مری کی شہری نسشت پر راجہ نور خان کا مقابلہ بیرسٹر فضل الٰہی سے ہوا اور بیرسٹر ہی کامیاب قرار پائے،  جبکہ دیہی حلقہ میں راجہ محمد خان کا مقابلہ راجہ فتح خان نے کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے،
مری، سردار کالا خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ
سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور گلیات کے 1937 کے اولین انتخابات میں بکوٹ سے سردار آزاد خان سیری لورہ کے سردار محمد صادق خان، گلیات سے عظیم خان کڑرال، راجہ عبدالرحمٰن آف نگری ٹوٹیال لورہ، پیر محمد کامران رجوعیہ (ڈیموکریٹک پارٹی) ،رائے بہادر (کانگریس) اور لالہ ایشور داس نواں شہر (ہندو سکھ نیشنلسٹ پارٹی) کامیاب قرار پائے،  اس انتخاب میں تحصیل ایبٹ آباد کے اس حلقہ سے 580 کل ووٹ پول ہوئے، امیدوار کی اہلیت پرائمری پاس، مالیہ دے رہا ہو اور سرکاری ملازم نہ ہو، اس پہلے انتخاب میں بیروٹ اور بکوٹ کا ایک پولنگ سٹیشن تھا جبکہ بکوٹ کے سردار آزاد خان اس الیکشن میں ہار گئے تھے۔ اگرچہ ان انتخابات میں پاکستان کا تصور ابھی واضح نہیں ہوا تھا مگر مسلم ہندو اور کانگریس کی دیگر قوم پرست جماعتوں سے ون ٹو ون مقابلہ ہوا تھا۔ اسی سال ایبٹ آباد میں پہلی بار مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ہزارہ مسلم لیگ کے پہلے صدر میاں نورالدین قریشی بنائے گئے،

ایبٹ آباد، قائد اعظم مسلم لیگ کی کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، سرکل بکوٹ کے عمائدین بھی موجود ہیں

 3 ستمبر کو سرحد لیجسلیٹو اسمبلی کا پہلا اجلاس ٹائون ہال ایبٹ آباد میں منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر خان، خان عبدالغفار خان، مولانا ابولاکلام آزاد اور بابو راجندر پرشاد رائے کے علاوہ بوئی سے  شریک ہوئے اور کانگریس کے کامیاب امیدوار ڈاکٹر خان کی قیادت میں سرحد حکومت نے حلف اٹھایا، اس پہلی کابینہ میں ہزارہ سے محمد عباس خان پہلے صوبائی وزیر بنے اور انہیں وزارت جنگلات کا قلمدان دیا گیا، اس کے جواب میں ہزارہ مسلم لیگ کی بھی عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی فقیرا خان جدون نے کی اور اس کاندفرنس میں قائد اعظم محمد علی جناح، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالماجد بدایونی، جمال میاں فرنگی محل، چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ سرکل بکوٹ سے سردار سید اکبر خان (پلک)، حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی،
سردار آزاد خان (بکوٹ)، محمد عباس خان (بیروٹ کے ممبر ضلع کونسل خالد عباس کے والد)، فضل الرحمان فیض، مولانا یعقوب علوی بیروٹوی (بیروٹ)، حاجی عبدالکریم خان (باسیاں) اور دیگر نے شرکت کی اور قائدین مسلم لیگ کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا، 1939 میں کہوٹہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے پہلے جنرل سیکرٹری  شیخ غلام رسول مقرر ہوئے جبکہ اسی سال اہلیان مری کی سماجی تنظیم انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے پہلے جنرل سیکرٹری سردار سلطان خان حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے . 19 مارچ 1944 میں مری میں خاکساروں کے 313 مجاہدین کا اجلاس ہوا جس میں مری کے علاوہ سرکل بکوٹ کے احراریوں نے بھی شرکت کی، اجلاس کے بعد انہوں نے مال روڈ پر جلوس نکالا جس پر پولیس نے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں ساملی تجال کا احرار دوست محمد شہید ہو گیا، اس پر رد عمل میں کوہالہ ڈاک بنگلہ کے سامنے
مسلم لیگ کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں سردار عبدالرب نشتر، سرکل بکوٹ، گلیات اور لورہ کے پہلے ایم ایل اے سردار خان بہادر خان اور چوہدری خلیق الزمان نے خطاب کیا، جلسہ کے بعد ڈاک بنگلہ کوہالہ میں لیگی قائدین کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ سرکل بکوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے پہلے صدر پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی منتخب ہوئے، اس اجلاس کی میزبانی باسیاں کے حاجی عبدالکریم خان نے کی اور یہ اعلان بھی کیا کہ آئندہ جب بھی مسلم لیگ اور اس کے قائدین کا کوہالہ میں کوئی اجلاس ہوا وہی اس کی میزبانی بھی کریں گے۔
جب قائد اعظم نے کوہالہ پل عبور کیا

یوں تو کوہسار پر گکھڑوں کے یکطرفہ اقتدار کے خلاف معرکہ آرائی اور رنجیت سنگھ کے دربار لاہور اور پھر جموں کے تہزیب و تمدن کے دشمن گلاب سنگھ کی بدکردار اور لٹیری حکومت کے خاتمہ کے بعد ہند بھر کے مسلمانوں کی طرح اہلیان کوہسار کے ہاتھ کچھ بھی تو نہ آ سکا، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں برطانوی استعمار نے جب برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں کے اس خلا کو کون پر کریگا، یہاں تو ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی، جس کی وجہ سے تمدن خور ہندوستانی تہذیب کو نئی اقدار حکومت و سماج سے آشنا ہوئی اور اس بتکدے میں ہکتا و تنہا رب الارباب کی صدائیں بلند ہوئیں..........یہی وہ دوقومی نظریہ کی اساس تھی جس نے ہندو، ہندی اور ہندوستان کا نعرہ مسترد کرتے ہوئے مسلم، اردو اور پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگا دیا اور قائد اعظم کی سرفروشانہ قیادت میں جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کا قلعہ یعنی پاکستان قائم کر دیا، جہاں آج ہم آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔
سرینگر: قائد اعظم اپنے دورہ کشمیر سے واپسی پر کوہالہ کی طرف سے آئے

برصغیر کے پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی اور کوہسار میں ہندونواز کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے عوامی استرداد کے بعد یہ بات الم نشرخ ہو چکی تھی کہ ہادی دوعالم کے پروانے مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے آپشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور گکھڑوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کے خاتمہ، رنجیت سنگھی اور گلاب سنگھی راجواڑوں نے اہلیان کوہسار کی تہذیب و ثقافت کو لوٹنے کیلئے کتھریوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں لا بسایا تھا انہیں بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب یہاں ان کی کو ئی گنجائش نہیں رہی اور اب انہیں اس پاک سرزمین سے انخلا کرنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ ایبٹ آباد شہر سے باہر کانگریس اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان سمیت دیگر مسلم لیگ مخالف جماعتوں کا کوئی اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا، 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے بعد سرکل بکوٹ کی سیاست میں تبدیلی رونما ہوئی اور سرکل بکوٹ کے کانگریس نواز جاگیردار سردار حسن خان لے بھی چولا بدلا اور مسلم لیگ جوائن کر لی اور اہلیان کوہسار نے انگریزی اقتدار کے آخری 1945ء کے الیکشن میں سرداری کی پگ اسی کے نام کر دی۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ آزادی کے بعد 1952ء کے پہلے الیکشن میں اسے ہمیشہ کیلئے مسترد کر دیا۔ سردار حسن علی خان کی اسی یونین کونسل بوئی کے رہائشی کشمیری نژاد سید غلام حسین کاظمی نے بر صغیر کی تاریخ صحافت میں پہلی بار1936 میں ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کے نام سے اخبار نکال کر پاکستان کا پیغام عام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی، چوہدری رحمت علی تو اس وقت تھرد ائر کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بلکل درست نہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں بلکہ پاکستان کا نام تو سرکل بکوٹ کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے بوئی کے سید غلام حسین کاظمی کے ذہن کی اختراع ہے، جدید علمی تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے، قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی منزل جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو چند قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی لیکن ابھی حصول منزل کیلئے کافی جد و جہد کی ضرورت تھی، سحر پیدا کرنے کیلئے ابھی ہزاروں ستاروں اور سیاروں کی قربانی پیش کی جانی تھی۔
شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کانگریس و حکمران یونینسٹ پارٹی کے زوال کے آثار نمایاں تر ہوتے جا رہے تھے، جوہر لال نہرو اس صورتحال سے پریشان تھے۔ اس سلسلے میں وہ کشمیر کے راستے کوہسار آنے کیلئے کوہالہ پل پر پہنچے ، مگر کوہسار کے مسلمانوں نے محارہ کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھپڑ رسید کر کے نہرو کو غربی کوہالہ میں قدم بھی رکھنے نہیں رکھنے دیا اور اسے وہاں سے ہی واپس دہلی جانا پڑا، یہ تھپڑ بھی قیام پاکستان کی نا گزییریت کی ایک اینٹ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خطہ کے لوگوں اور اپنے جانثاروں سے براہ راست رابطے کیلئے یہاں آنے کا پروگرام بنایا، آپ جولائی 1944ء میں کشمیر کے راستے کوہالہ کے قریب برسالہ کے مقام پر پہمچے، قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے غربی کشمیر، سرکل بکوٹ اور مری کے کوہساروں کے چپہ چپہ سے لوگوں کا سمندر امڈ آیا تھا، قائد اعظم کی کار کو کوہسار کے پھولوں سے لاد دیا گیا تھا، قائد نے یہاں چائے نوش جاں کی اور پھر آدھے گھنٹے بعد کوہالہ پل پر پہنچے

عبدالکریم خان آف باسیاں
  تو اہلیان کہسار ان کے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھنے لگے، کوہالہ کا یہ تاریخی پل پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجھنے لگا، آپ نے ہاتھ ہلا ہلاکر پاکستان کے متوالوں کے سچے اور سُچے جذبات کو سراہا،موقع پر آپ کو موجودہ ڈاک بنگلہ کوہالہ کے مقام پر باسیاں کے عبدالکریم خان نے استقبالیہ بھی دیا جس میں بیروٹ سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلم لیگی اور یو سی بیروٹ سے موجودہ رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی کے والد بزرگوار ۔۔۔۔ عباس خان عرف مہندو خان نے اہلیان بیروٹ کی طرف سے ہزاروں روپے کا چندہ بھی مسلم کے فنڈز میں دیا ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے ہزاروں افراد کا قافلہ ان کے ساتھ دیول تک ساتھ آیا۔نور الٰہی عباسی اپنی کتاب تاریخ مری (نیا ایڈیشن) کے صفحہ نمبر 185پر لکھتے ہیں۔
اس موقع پر لوئر دیول کے بزرگ رہنما امیر احمد خان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل کر قائد اعظم کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے بصد خلوص احترام پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا کہ بزرگ سبز است، تحفہ درویش است، (ایک بزرگ کی طرف سے سبز پتوں کا تحفہ قبول کر لیجئے) یہ کہتے ہوئے بابا امیر خان کی نظریں بابائے قوم کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں ۔۔۔۔۔ قائد اعظم نے بابا جی سے پوچھا۔
بابا جی بتائیں میں کون ہوں اور میرا مشن کیا ہے؟
جی آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بابا احمد خان نے بڑی متانت سے جواب دیا۔

عباس خان آف بیروٹ
 قائد اعظم نے مری پہنچ کر جو تقریر کی وہ اگرچہ انگریزی زبان میں تھی اور اس کا مری کے ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ بھی کر رہے تھے (یہ تقریر پاکستان نیشنل آرکائیوز اسلام آبادکے ریکارڈ میں موجود نہیں) نور الہی عباسی ہی اس کے راوی ہیں، اپنی کتاب تاریخ مری میں لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔ میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیں۔ (، اس موقع پر راجہ کالا خان نے نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا )۔
قائد کا کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا، آپ کے اس دورے کا اثر یہ ہوا کہ یہاں مقیم کانگریسیوں کے حوصلے پست ہو گئے، علاقے میں ایک نیاجوش و ولولہ دوڑ گیا اور واقعی کوہسار کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہو گیا، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی عید آزادی کی صبح نمودار ہو گئی۔۔۔۔لیکن آج 70 سال بعد وہ خواب جسے اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا اس کی تعبیر معکوس نے قوم کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔ کیا خلد بریں میں موجودہ پاکستانی حالات پر قائد اور اقبال کی روح تڑپتی نہ ہو گی؟

 26 جولائی 1944 کو قائد اعظم کے دورہ سرکل بکوٹ و مری کے موقع پر کوہالہ پل، لوئر دیول اور مری میں فقید المثال استقبال کیا گیا اور دونوں علاقوں کے مسلمانوں کی طرف سے قائد اعظم کو مسلم لیگ کے فنڈز کیلئے ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا گیا، بکوٹ کے سرگرم کارکن سمندر خان حلوائی نے مری سے رخصتی کے وقت قائد اعظم کے گھٹنے چوم کر ۔۔۔۔۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ مستانہ لگایا۔ اس موقع پر مری میں سکھ لیڈر تارہ سنگھ بھی موجود تھا، اس کی ہدایت پر سکھ جتھے گھوڑا گلی، ساملی، کمپنی باغ، تریٹ اور بھارہ کہو میں قائد اعظم کی گاڑی کو دیکھ کر کرپانیں لہراتے رہے، قائد اعظم کے اس دورے اور مسلمانوں کے جوش و ولولے سے مری، باڑیاں، ایوبیہ اور نتھیاگلی میں مقیم انگریزوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی املاک مقامی لوگوں کو بلکل اسی طرح اونے پونے فروخت کرنا شروع کر دیں۔ اسی سال بیروٹ میں فضل الرحمان فیض کے گھر پر انجمن احرار اسلام کا اجلاس ہوا اور یہاں پر ہی عمائدین علاقہ کی باہمی مشاورت سے اس کا نام بدل مسلم لیگ بیروٹ رکھا گیا اور اس کے پہلے صدر بیروٹ کے موجودہ رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی کے والد عباس خان کو متفقہ طور پر منتخب کیا گیا، بریگیڈئر (ر) مصدق عباسی کے والد صادق عباسی اس کے جنرل سیکرٹری بنے جبکہ مولانا یعقوب علوی بیروٹوی کو اس کے سیکرٹری نشرو اشاعت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں، جولائی 1945 میں ملکوٹ کے شیردل خان کے گھر پر عمائدین علاقہ کا اجلاس ہوا جس میں سردار سید اکبر خان مسلم لیگ پلک ملکوٹ کے صدر، شیردل خان جنرل سیکرٹری اور پلک ملکوٹ کے پہلے صحافی اور ہفت روزہ زمین دہلی کے نمائندے عبدالرزاق عباسی مجاہد کو سیکرٹری نشر و اشاعت منتخب کیا گیا، بعد میں اہلیان پلک ملکوٹ نے موجودہ ایوبیہ بازار میں جلوس نکالا اور پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ کے فلک شگاف نعرے لگائے (یہ حقائق راقم کو ملکوٹ کی ایک اہم سیاسی شخصیت نے بتائے ہیں) وقت مسلم لیگی کارکنوں کا جوش دیدنی تھا اگلے سال یعنی 1945 کے مئی کے وسط میں پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی۔ دیول کے مسلم لیگی رہنما حکیم عبدالخالق علوی، سردار کالا خان اور سردار نور خان کی اپیل پر مسلمانان کوہسار نے مقامی غیر مسلموں پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے جھیکا گلی مری سے ایک عظیم الشان جلوس نکالا جو کشمیری بازار، کنڈاں، اوسیاہ، دیول، ترمٹھیاں، بیروٹ، باسیاں سے ہوتا ہوا کنیر پل کے راستے کوہالہ پہنچ کر ختم ہوا جہاں اس جلوس کے ہزاروں شرکا کے اعزاز میں حاجی عبدالکریم خان اور بکوٹ کے سمندر خان حلوائی نے طعام کا بندوبست کیا ہوا تھا، کھانا کھانے کے بعد جلوس کے شرکا سے حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی، سردار سید اکبر خان، خان بہادر خان کے علاوہ  پھگواڑی کے راجہ علی شان، راجہ فضلداد خان، محمد نبی خان، اوسیا کے راجہ اشرف خان اور سردار شفیع کے علاوہ دیگر لوگوں نے خطاب کیا۔ مولانا یعقوب علوی بیروٹوی نے کوہالہ میں مسلم لیگ سرکل بکوٹ کے پہلے اجلاس میں یہ نظم فی البدیہہ پڑھی ؎
تم سواد اعظم سے رکھو اتحاد

شائد اس پر آئیہ قرآن ہے

جد و جہد ایثار مسلم لیگ کا

ما حصل یہ ملک پاکستان ہے

ہے وجود وطن مسلم لیگ سے

حب وطن از حصہ ایمان ہے

زندہ پائندہ باد اے لیگ ما

تجھ سے ہی  قائم ہماری شان ہے

سروری دین ما گمت گریست

لیگ کا منشور اور عنوان ہے
افسوس، اس سلسلے میں گھوڑا گلی مری کے شاعر سید صادق بخاری کا کلام نہیں مل سکا۔ بہر حال یہ دونوں شاعر کوہسار کا وہ تہذیبی اثاثہ ہیں جن پر ملت کوہسار ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
تحریک پاکستان میں کوہسار کے اہل صحافت کا حصہ
لکھاری یعنی شاعر، ادیب اور صحافی کسی بھی معاشرے اور سسٹم کا آئینہ ہوتے ہیں، یہ لوگ انتہائی حساس، پر سوز، شاہین کی نظر رکھنے والے اور دیدہ بینا ہوتے ہیں، حالت امن میں ان کا شعر و نغمہ قومی یکجہتی، قومی شعور اور جذبات کو جلا بخشتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ قوم پر کوئی نازک وقت آئے تو یہی لوگ ملت کی جذباتی اور قومی ضرورتوں کو اجالتے ہیں اور ان کا مورال بھی بلند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بالخصوص ۔۔۔۔۔۔۔ جب قوم آزادی جیسی نعمت خداوندی سے ہمکنار ہونے کیلئے پڑھ پڑھا رہی ہو، اسے منزل دو قدم پر نظر آ رہی ہو اور وہ اس کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہوں ۔۔۔۔۔۔ اسی تناظر میں دیکھیں تو ۔۔۔۔۔ ہمیں کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کے شعرا، ادیب اور صحافی آزادی کیلئے بیتاب قوم کے ہم قدم اور ان کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں، مجھے یہ بات بھی کہنے کی اجازت دیجئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ شاعر، ادیب اور صحافی ہی ہیں جنہوں نے کوہسار کے قلب بیدار کو آزادی کی کہکشاہوں سے آشنا کیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ان کا مورال اتنا بلند کیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ آج انہی کی کوششوں اور کاوشوں سے ہم اپنے وطن کی آزاد کی فضائوں میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
اگر ہم قیام پاکستان سے پہلے مری اور سرکل بکوٹ کی تاریخ صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو مری شہر ہمیں انگریز سامراجیت کا گڑھ نظر آتا ہے جہاں کے برٹش تعلیمی اداروں نے جلیانوالہ باغ کے دوہزار مجاہدین آزادی کے قاتل جنرل ڈائر جیسے وحشیوں کو ہی پیدا کیا، یہاں سے ینگ ہیسبینڈ، ایمی رابرٹا راک، بروس بی فادر اور دیگر ادیب پیدا ہو سکے مگر ان کا فوکس اور لٹریچر کی تھیم سامراجی مفادات کے ارد گرد ہی گھومتی تھی، البتہ جب کشمیری ادیبوں اور صحافیوں نے مری جیسے برٹش انڈیا کے ہل سٹیشن میں قدم رکھا تو ان کی وساطت سے لاہور کے روزنامہ زمیندار، روزنامہ انقلاب، روزنامہ احسان، راولپنڈی کے روزنامہ الجمیعت اور روزنامہ ترجمان سرحد سمیت کچھ دیگر اخبارات میں اہلیان کوہسار کی آواز بلند ہوئی (ان اخبارات کے فائل مائیکرو فلموں کی صورت میں اسلام آباد میں نیشنل آرکائیوز کے ادارے میں پڑھے جا سکتے ہیں)، اگر محقق جیسی جستجو کے ساتھ ایمپیرئل دور میں مری کے صحافیوں کو کھوجا جائے تو ہمیں خواجہ احمد حسن جوش، رسا بریلوی ، زرغام اللہ خان، مولانا فتح محمد خضری آف موہڑہ سیداں، میر اکبر خان موسوٹوی، کرم حیدری، ارمان فارانی، خواجہ محمود احمد منٹو، امان اللہ خان نیازی، ڈاکٹر شکنتلا جیسے نام ملتے ہیں، یہ لوگ بیک وقت ادیب اور صحافی تھے اور لاہور، راولپنڈی اور دہلی کے اخبارات میں ان کی تحریریں شائع ہوتی تھیں، ان ادیبوں اور صحافیوں کی وجہ سے ہی ملکہ کوہسار ادب عالیہ اور صحافت سے متعارف ہوئی، یہاں ادبی انجمنوں کی بنیاد رکھی گئی اور حالات حاضرہ پر مباحثے ہونے لگے جن کی رپورٹیں لاہور، دہلی اور راولپنڈی کے اخبارات میں شائع ہوتی تھیں، اسی سلسلے میں روات کی اصلاحی اور بعد میں ادبی روپ اختیار کرنے والی انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ نے بھی ادبی و صحافتی محاذ پر قابل قدر خدمات انجام دیں، سرداران روات ادب پرور لوگ تھے اور ان کی دعوت پر مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور دیگر اعلیٰ پائے کے ادیب، شاعر اور صحافی انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار سے اہلیان کوہسار کو گرماتے تھے، نور الٰہی عباسی اور پروفیسر کرم حیدری کی ذہنی و فکری نشو و ارتقا اسی انجمن کے زیر سایہ ہوا کیونکہ ان کو ان ادب اور صحافت کی جلیل القدر ہستیوں سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔
سرکل بکوٹ میں سردار آزاد خان ایسے پڑھی لکھی سیاسی شخصیت تھے جن کے گھر بکوٹ میں قیام پاکستان سے قبل لاہور کا انگریزی اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ اور آزادی کے بعد روزنامہ ڈان کراچی، روزنامہ زمیندار اور راوزنامہ نوائے وقت آیا کرتا تھا، (راوی: شمس الرحمان عباسی، سینئر صحافی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان، اسلام آباد)، بیروٹ میں مولانا یعقوب علوی بیروٹوی نے روزنامہ زمیندار لگوا رکھا تھا اور اس میں ان کا کلام بھی شائع ہوتا تھا (روزنامہ زمیندار کے چند شمارے راقم الحروف کے پاس بھی موجود ہیں جو مولانا علوی بیروٹوی کے پاس آتے تھے) مگر ۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ میں جس صحافی نے اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ شمالی سرکل بکوٹ کی یو سی بوئی کے کشمیر نژاد سید غلام حسین کاظمی ہیں، وہ روزنامہ زمیندار لاہور کے سرکل بکوٹ میں نمائندہ خصوصی تھے اور انہوں نے جون 1936 میں ایبٹ آباس سے ہفت روزہ پاکستان جاری کیا تھا ، غلام حسین کاظمی کانگریس کے گڑھ اور سلطان آف بوئی سردار حسن علی خان کی جاگیر میں رہتے تھے اس کے باوجود انہوں نے چوہدری رحمت علی سے بھی پہلے لفظ پاکستان تخلیق ہی نہیں کیا بلکہ اس نام سے ایبٹ آباد سے اخبار بھی ہفت روزہ پاکستان کے نام سے اخبار نکال لیا ، غلام حسین کاظمی کا تعلق کشمیر کے ضلع بارہ مولا سے تھا اور ان کے والد کا قریبی تعلق سلطان آف بوئی سے تھا اور وہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہجرت کر کے یو سی بوئی میں آباد ہوئے تھے، کاظمی صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1930 میں روزنامہ زمیندار سے کیا اور پھر اپنا ہفت روزہ پاکستان نکالا،  انہوں نے پاکستان کے نام سے در اصل 1928 میں ایبٹ آباد سے اخبار نکالنا چاہا مگر اس وقت کے کمشنر ہزارہ سکندر مرزا، جو بعد میں پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی بنے ان کی درخواست مسترد کر دی، ایک سال بعد درخواست دی اور وہ پھر مسترد ہو گئی، 1921 میں انہیں شمالی سرکل بکوٹ میں روزنامہ زمیندار کے نمائندے کی حیثیت سے کانگریس کے ایک اجلاس کی مخالفانہ رپورٹنگ پر فارن ریلیشنز آرڈیننس کی خلاف ورزی کے الزام میں سردار حسن علی خان کی شکایت پر جیل بھیج دیا گیا ،1935 میں کاظمی صاحب نے اخبار کے ڈیکلیریشن کیلئے پھر درخواست دی تو خوش قسمتی سے اجازت نامہ مل گیا جس کے ذریعے انہوں نے مسلم لیگ اور پاکستان کے ترجمان کی حیثیت سےخطے کو لوگوں کو وہ شعور دیا کہ یہ خطہ آج بھی حب الوطنی اور مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
سرکل بکوٹ کے دوسرے صحافی جو روزنامہ زمیندار لاہور کے آفس سے وابستہ تھے اور براہ راست چیف ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان سے استفادہ کر رہے تھے اور اخبار میں کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ کی آواز بلند کرتے تھے وہ بکوٹ کے قاضی ہدایت اللہ تھے، وہ تقریباً تیس سال تک مسلمانان ہند کی سب سے موثر اخبار سے وابستہ رہے، انہوں نے عمر بھر شادی نہیں کی کیونکہ ان کی شادی صحافت سے ہو چکی تھی، انہوں نے 1954 میں لاہور میں ہی وفات پائی اور وہاں ہی آسودہ خاک ہیں۔
سرکل بکوٹ کے تیسرے صحافی ریالہ ملکوٹ کے عبدالرزاق عباسی مجاہد تھے، 1945 میں انہیں پلک ملکوٹ میں قائم مسلم لیگ کا سیکرٹری نشرو اشاعت بنایا گیا، انہوں نے اپنی صحافتی تربیت معروف کشمیری مورخ اور صحافی محمد دین فوق سے ان کے ماہنامہ کشمیری  لاہور میں حاصل کی, اس بات کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ وہ اپنے صحافتی استاد محمد دین فوق کے ہمراہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی محافل میں بھی شریک ہوتے رہے اور پھر انیس 1928 میں واپس گائوں آ گئے، اور پھر دہلی کے روزنامہ زمین سے وابستہ ہو گئے، انہیں یہ اخبار بذریعہ ڈاک ہر روز ریالہ میں ملا کرتا تھا، ان کا ہزارہ کی ضلعی انتطامیہ میں بھی خاصا اثر و رسوخ تھا اور نتھیاگلی میں جو سرکاری اجلاس ہوتا تھا انہیں مہمان کی حیثیت سے اس میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی، اور ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اس اجلاس کی رپورٹنگ غیرجانبدارانہ انداز میں کریں گے، ان کی رپورٹنگ کو بھی ضلعی اور صوبائی سطح پر اہمیت دی جاتی تھی مگر مری میں احراروں پر فائرنگ کو بھی انہوں نے اپنے اخبار زمین دہلی میں صفحہ اول پر چھپوایا، وہ شاعر بھی تھے اور ان کی نظمیں بھی اس اخبار میں چھپتی تھیں۔
قیام پاکستان سے قبل سرکل بکوٹ سمیت مری کے صحافیوں نے کبھی بھی کسی بھی نیوز خواہ وہ حکومت مخالف ہی کیوں نہ ہو، کا بلیک آئوٹ نہیں کیا اور ایسی دیانتداری سے رپورٹنگ کی جس پر وہ خراج عقیدت کے مستحق ہیں ۔۔۔۔۔ اس عہد میں تعلیم کا اتنا چلن بھی نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنے قلم سے کوہسار کی جو خدمت کی وہ انہی کا حصہ تھا ۔۔۔۔۔
  قیام پاکسستان کی راہیں روشن ہونے لگیں
یوں تو قائد اعظم کے 1944 کے دورہ سرکل بکوٹ و مری کے بعد ہی حالات یکسر تبدیل ہو گئے تھے مگراسی کے فالو اپ میں اپنے دورہ شمالی پاکستان کے سلسلے میں آل انڈیا کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو نے شیخ عبداللہ کی ہمراہی میں کوہالہ پل عبور کرنے کی کوشش کی اور یو سی بکوٹ کے کوہالہ میں ایک سمندر خان حلوائی نامی دکاندار نے ملنے کے بہانے جواہر لال نہروں کو کوہالہ پل کے وسط میں اس سے بغلگیر کر کے اسے ایک ایسا تھپڑ رسید کیا تھا کہ اس کے گال ہی نہیں بلکہ کوہسار سرکل بکوٹ اور مری سمیت گلیات میں صٓدیوں سے مقامی لوگوں کی آبائی زمینوں پر قابض ہندو کھتریوں کے مستقبل پر بھی سرخ نشان لگ گیا تھا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ چشم فلک نے دیکھا کہ پنجاب کے پی کے سرحد پر 1820 میں تعمیر ہونے والے قلعہ کی بنیادوں میں پیر عبدالمجید علوی المعروف پیر صاحب دیول شریف کے دادا محمد ہاشم علوی اور ان کے ساتھ بر سر پیکار مجاہدین کو زندہ درگور کرنے والے ہندو کھتریوں کی اولادوں میں سے ہائر سیکنڈری سکول اوسیاہ کا ایک ٹیچر بھگت سنگھ دیول سے دریائے جہلم کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور اوسیاہ کے اس کے جہادی شاگرد اس کی جان مار کر ثواب حاصل کرنے کیلئے اس کے پیچھے آڑے بنے ٹاپ رہے تھے، بھگت سنگھ نے دریائے جہلم کی خوفناک بپھری موجوں میں چھلانگ لگا دی اور وہ اپنی برادری کے دیول کے سب سے بڑے تاجر  کے پاس پہنچ گیا جسے مسلمانان دیول نے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے ہندوستان کے بجائے اوپر پہنچا دیا تھا۔ (یہ واقعہ اوسیاہ ہائر سیکنڈری سکول کے ایک ٹیچر نے راقم الحروف کو بتایا تھا))
اہلیان کوہسار کی تحریک قیام پاکستان میں اپنی بے لوث خدمات کا ذکر جہاد کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے 1946 کے حالات کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اسی سال ہندوستان بھر میں الیکشن ہوئے، پنجاب قانون ساز اسمبلی میں مری کا حلقہ نمر تین تھا، مری میں مسلم لیگ کے زیر اہتمام اور سردار نور خان اور سردار کالا خان کی میزبانی میں تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سردار عبدالرب نشتر اور پیر صاحب مانکی شریف سمیت اہم رہنماہوں نے شرکت کی، اسی دوران پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی نے مسلم لیگ کے حق میں فتویٰ صادر کر دیا اور اسے انتخابات میں کامیاب کرنے کی اپیل کی، مری کے حلقہ نمبر تین کے انتخابات میں مسلم لیگ کے امیدوار راجہ کالا خان نے 10 ہزار 3سو 80ووٹ لیکر اپنے مد مقابل راجہ فتح خان کو2 ہزار 8ووٹ سے شکست دی اور کامیابی کے نوٹیفکیشن کے بعد جلوس کے ساتھ پوٹھہ شریف میں حضرت پیر ملک سراج خان کے مزار پر شکرانے کے نوافل ادا کئے اور دعا کی۔ اس الیکشن میں سرحد کی قانون ساز اسمبلی 38 حلقوں میں تقسیم تھی، موجودہ تحصیل ایبٹ آباد (سرکل بکوٹ، سرکل لورہ اور گلیات) کے حلقہ کا نمبر آخری یعنی 38 تھا، سرکل بکوٹ میں نواب آف بوئی سردار حسن علی خان کانگریس کی طرف سے جبکہ سرکل لورہ میں نگری ٹوٹیال کے راجہ سردار خان مسلم لیگ کے امیدوار تھے، ان الیکشنز میں مسلم لیگ کے 9 میں سے 8 امیدوار کامیاب ہوئے، مسلم لیگی کامیاب امیدواروں میں لورہ کے راجہ سردار خان، ریحانہ ہری پور سے سردار خان بہادر خان، محمد عباس خان، خان علی گوہر خان، خان، محمد فرید خان، ایبٹ آباد سے خان بہادر جلال الدین (جلال بابا) شامل تھے۔ ہری پور کے خان بہادر خان حلقہ 38 نے 6ہزار 9 سو80 ووٹ لیکر خاکسار تحریک کے اپنے مد مقابل امیدوار محمد عظیم خان کو ہرا دیا ۔ 
 مارچ 1946 میں کشمیریوں پر ڈوگرا فوج نے عرصہ حیات تنگ کر دیا، اس کے نتیجے میں وہ تحریک آزادی اٹھی کہ ظالم گلاب سنگھ کے پوتے اور نام نہاد مہاراجہ ہری سنگھ کو رات کی تاریکی میں نئی دہلی فرار ہونا پڑا، اسی ماہ کوہالہ، کھودر اور آزاد پتن میں ڈوگروں نے فوجی چوکیاں قائم کیں جہاں ڈوگرہ فوجی ان پلوں پر آنے والے کشمیریوں کا سامان لوٹ لیتے تھے، مئی میں مظفر آباد اور باغ کے اضلاع میں ڈوگروں نے مقامی لوگوں کی فصلیں تباہ کر کے گھروں کو نذر آتش کر دیا، اسی دوران دونوں اضلاع میں تلاشی کے دوران مسلمانوں سے اسلحہ چھین کر ان کو نہتا کر دیا گیا، ستمبر تا نومبرچکوٹھی سے آگے ڈوگروں نے راولپنڈی سری نگر روڈ بند کر دی، اس روٹ پر چلنے والے موجودہ پاکستان کے ٹرانسپورٹروں سمیت بیروٹ کے راجہ نذر خان (جلیال)،سید غلام نبی شاہ، سید محمود شاہ اورٹھیکیدار محمد امین خان (بیروٹ) کی مشترکہ سرینگر روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی کی آٹھ بسوں کو ضبط کر لیا گیا، تین بسیں جو راولپنڈی میں تھیں اس کمپنی کے پاس بچ رہیں اور یہ انیس سو اسی تک راولپنڈی مظفرآباد روٹ پر چلتی رہیں، اسی دوران مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ڈوگرہ حکومت کیخلاف سول نافرمانی کا اعلان کر دیا، شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے کشمیر چھوڑ دو کی کال دے دی اور قافلوں کی صورت میں کشمیری سرکل بکوٹ اور مری آنے لگے، کوہسار کے لوگوں نے کشمیریوں کے ساتھ مواخات نبوی کو زندہ کر دیا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ) جون 1946 سے قافلے آ رہے تھے اور اہلیان کوہسار ان مظلوم کشمیریوں کی راہ میں آنکھیں بچھائے انہیں اپنا گھر بار، مال مویشی اور رہنے کے دیگر وسائل پیش کر رہے تھے کہ ڈوگروں نے کوہالہ پل بند کر دیا، ادھر مناسہ تک اور دوسری طرف چھتر تک کشمیری پل کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، اس پر مستضاد یہ کہ ڈوگروں نے ان محصور قافلوں پر تشدد شروع کر دیا جس کی وجہ سے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے اس پر کوہسار بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، نومبر میں باسیاں کے مجاہد سردار یعقوب خان نے مہاراجہ ہری سنگھ کو ٹیلیگرام کیا کہ اس کے درندہ صفت ڈوگرہ فوجی کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ انہیں اس ظلم سے روکے یا مستعفی ہو جائے مگر اس کے باوجود حالات نہ بدلے تو سردار یعقوب خان نے غربی کوہالہ میں ڈوگرہ فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہرجیت سنگھ کو اغوا کر لیا اور اسے کوہالہ پل کے درمیان الٹا لٹکا دیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک پل نہیں کھولا جاتا اور تمام کشمیری قافلے اس شرط کے ساتھ پل نہیں پار کر لیتے کہ آئندہ کوہالہ پل بند نہیں کیا جائے گا اسے ایک گھنٹے تک لٹکاتے ہوئے گولی مار دی جائیگی ۔۔۔۔۔ آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ۔۔۔۔۔ پل کھل گیا، کشمیریوں کے قافلوں نے پل عبور کیا اور پھر یہ پل 1992میں سیلاب کے باعث ٹوٹنےتک کبھی بند نہیں ہوا
ظہور پاکستان اور کوہسار میں جشن
چودہ اگست 1947ء کو رات بارہ بجے آزادی اور قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی اہلیان کوہسار 26 رمضان المبارک کی شب اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانے لگے، اس رات سحری کے بعد ایک عظیم الشان جلسہ میں شرکت کیلئے اہلیان کوہسار پیدل ہی مری کی جانب چل پڑے،سات بجے لارنس کالج کی اسمبلی ہوئی جس میں کالج کے پرنسپل بشیر احمد نے کالج کے پول سے برطانوی پرچم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اتار کر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا اور کالج کے بچوں نے علامہ اقبال کی نظم ۔۔۔۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ۔۔۔۔ گائی، اس موقع پر کالج کی گرلز سیکشن کی انچارج ہیلن بریون فنڈلے بھی موجود تھیں، اسمبلی کے بعد پرنسپل نے بچوں کو نئی مملکت پاکستان کے قیام کی مبارک باد دی اور کالج غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا گیا جبکہ سرکل بکوٹ میں کوہالہ پل پر مقامی مسلم لیگیوں نے پاکستانی پرچم کو سربلند کردیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، 14 اگست کی صبح ہی دیول سے مسلم لیگ نیشنل گارڈ کا با وردی مسلح دستہ سرکل بکوٹ اور شمالی تحصیل مری کے لوگوں کے جلوس کے ساتھ مری کی جانب روانہ ہوا، گھوڑا گلی سے بھی مسلم لیگ نیشنل گارڈ کا با وردی مسلح دستہ اپنے سالار حاجی اعتبار خان کی قیادت میں مارچ پاسٹ کرتے ہوئے جنوبی تحصیل مری اور سرکل لورہ کے ہزاروں افراد کے ساتھ مری کی جانب آ رہا تھا، ایجنسی گرائونڈ میں سرداران روات نے ایک بڑا سٹیج تیار کروایا تھا جس پر قائد اعظم کا پورٹریٹ رکھا ہوا تھا اور آنے والے قافلوں کا سپیکر پر خیر مقدم کیا جا رہا تھا، اس روز مری میں جشن کا سماں تھا اور نوجوان رقص کر رہے تھے، تقریباً 11 بجے مولانا سعید ارحمان الشمیری کی تلاوت کلام پاک سے جلسہ کا آغاز ہوا، سردار نور خان نے اس موقع پر پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی، لورہ کے سردار خان بہادر خان اور دیگر کے ساتھ پاکستانی پرچم کو جلسہ گاہ میں لہرایا اور دیول اور گھوڑا گلی کے باوردی نیشنل مسلح گارڈ نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سلامی دی،اس موقع پر پاکستانی پرچم بنانے والے مری کے خواجہ عبد الجبار خوشی ضبط نہ کر سکے اور حرکت قلب بند ہونے سے سٹیج پر ہی انتقال کر گئے، عصر کے وقت جلسہ ختم ہوا اور خواجہ عبدالجبار کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی، راجہ نور خان اور راجہ کالا خان نے جلسہ کے شرکاء کی افطاری کا بھی اعلان کیا مگر سرکل لورہ کے لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے، آنے والی رات رمضان المبارک کی 27 ویں شب تھی جس میں مسلمانان کوہسار نے نماز تراویح کے بعد نئی مملکت کے قیام پر شکرانے کے نوافل بھی ادا کئے۔ 1047 کا آغاز ہوتے ہی جنوری میں ڈونگا گلی اور نتھیا گلی کے درمیان مولاچھ میں ارجن سنگھ کی برادری کے چار سو گھروں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا تاہم ارجن سنگھ اور اس کی برادری کو بحفاظت جانے کی اجازت دیدی گئی، فروری میں ایبٹ آباد میں سردار خان بہادر خان، جلال بابا، خداداد خان، گلیات میں زین خان کڑرال، لورہ میں سردار خان اور کاغان میں سید محمود شاہ کو گرفتار کر لیا گیا، سرکل بکوٹ میں پیر صاحب بکوٹ شریف حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹی اور سردار حسن علی خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا اور انہیں نقص امن کے الزام میں گرفتار کر کے ایبٹ آباد پہنچا دیا گیا، پکڑ دھکڑ کے دوران بکوٹ تھانہ کو آگ لگا دی گئی مگر اس کا جزوی نقصان ہوا، کوہالہ میں تار گھر اور ڈاکخانہ کو آگ لگانے کی کوشش پولیس نے ناکام بنا دی جبکہ ڈاک بنگلہ پر پتھرائو کیا گیا، 6 مارچ کو فوج کی جاٹ رجمنٹ اور پنجاب پولیس نے دیول کا محاصرہ کر لیا اور مری میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، اور نیشنل گارڈ مری کے سالار محی الدین سمیت 40 افراد کو گرفتار کر لیا گیا اس کے باوجود مسلم لیگی کارکن دیول سے جھیکا گلی تک ہر روز جلوس نکالنے لگے،
12
مارچ کو گڑھی حبیب اللہ کی مسلمان آبادی پر مقامی ہندئووں نے حملہ کر کے دو خواتین سمیت 14 افراد شہید کر دئیے اس کے جواب میں مسلمانوں کے حملہ میں 45 ہندئووں اور سکھوں کو ہلاک کر دیا گیا مارچ میں ہی اس کے رد عمل میں لورہ کے قریب چھاجن میں 47 ہندئووں کو قطار میں کھڑا کر کے گولی مار دی گئی، اسی ماہ مری شہر اور کوہسار کے دیگر علاقوں میں سکھوں ور ہندووں کے مکانات کو لوٹ کر نذر آتش کرنے کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ دیول، بیروٹ اور باسیاں کے سکھ خاندانوں کو بحفاظت کوہالہ پل عبور کرایا گیا، ان خاندانوں میں ترمٹھیاں کا دیوان سنگھ، بیروٹ کا سراں میں آباد ہوشناک سنگھ اور باسیاں کا کاکا سنگھ خاندان بھی شامل تھا جبکہ دیول کے سب سے بڑے تاجر کستوری لال کو کلہاڑیوں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لوئر دیول، پھگواڑی، موہر کنڈی بکوٹ اور دیگر علاقوں کے غیر مسلموں کو بحفاظت جانے کی اجازت دی گئی، بکوٹ تھانہ کے ایس ایچ او کو اہلخانہ اور دیگر اہلکاروں کے ہمراہ ستمبر میں احترام کے ساتھ کوہالہ پل سے رخصت کیا گیا تاہم سرکل بکوٹ کے تمام علاقوںمیں گردواروں کو نذر آتش کر دیا گیا، مری میں سردار موہن سنگھ کی کوٹھی، سیسل ،برائٹ لینڈ،لاک ووڈ، لنٹاٹ اور سام ہوٹل بھی لوٹ کر خاکستر کر دئیے گئے۔
9
اپریل کو دیول میں سردار نور خان اور ڈاکٹر عبدالخالق علوی کی زیر صدارت ہونے والے جلسہ عام میں ہندئووں، سکھوں اور حکومت برطانیہ کیخلاف زبردست تقریریں کی گئیں اور نعرے لگائے گئے، مئی میں مسلم لیگ کے زیر اہتمام مری میں تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی، بعد میں مسلم لیگ نے مری میں دفعہ 144 کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ صرف جلسہ کیا بلکہ مسلم لیگ کے باوردی مسلح نیشنل گارڈ نے مارچ پاسٹ بھی کیا، اسی ماہ سرکاری سکولوں سے بھی غیر مسلم اساتذہ رخصت ہونے لگے جبکہ اوسیاہ سکول کا ایک استاد بھگت سنگھ اپنا پیچھا کرنے والے شاگردوں سے بچنے کی کوشش میں دریائے جہلم میں کود کر ہلاک ہو گیا، جون میں کوہسار بھر میں سکول غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دئے گئے، 30 اگست کو مری میں آزادی کشمیر کیلئے جہاد کونسل اور وار کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں خان عبدالقیوم خان (سرحد) اور کمشنر راولپنڈی عبد الرحیم کی طرف سے کشمیری حریت پسندوں کو اسلحہ کی فراہمی کا اعلان کیا گیا، ڈوگرہ حکومت نے اسی دوران مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کو باغی قرار دے کر زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کا حکم دیدیا جس پر انہیں اپنے خسر میر اکبر خان نے بھی اپنے گھر سے نکال دیا اور وہ چھپتے چھپاتے غازی پہلوان کے پاس آئے اور رات کو ناولی بیروٹ کے قائم علی خان عرف قالو خان نے انہیں اہل خانہ سمیت دریائے جہلم پار کروا کر وایا جہاں سے وہ مری میں نو تشکیل شدہ آزاد کشمیر حکومت کی تحویل میں چلے گئے۔ (ختم شد)
------------------------------
اس آرٹیکل کی تیاری میں ان کتابوں سے مدد لی گئی
 
۔۔۔۔۔۔ داستان مری از پروفیسر کرم حیدری
 
۔۔۔۔۔۔ تاریخ مری از نور الٰہی عباسی
 
۔۔۔۔۔۔ تاریخ تناول از فدا حسین
 
۔۔۔۔۔۔ تاریخ ہزارہ از شیر بہادر خان پنی
 
۔۔۔۔۔۔ تاریخ صحافر ہزارہ از زاہد حسین مشوانی، ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن بہاولپور یونیورسٹی میں لکھا گیا مقالہ
 
۔۔۔۔۔۔ پاکستان کرانیکل از عقیل عباس جعفری
 
۔۔۔۔۔۔ تاریخ پونچھ از سید محمود آزاد
 
۔۔۔۔۔۔ اناسئیکلو پیڈیا پاکستانیکا از سید قاسم محمود
 
۔۔۔۔۔۔۔ اورنگزیب سے مائونٹبین تک از راج موہنگاندھی
 
۔۔۔۔۔۔ : تاریخ صحافت از امداد علی صابری
اخبارات
 
۔۔۔۔۔۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی، مشتاق احمد قریشی کا مضمون ۔۔۔۔ لفظ پاکستان کا خالق کون ۔۔۔۔۔؟ 16 اگست 2012
 
۔۔۔۔۔۔ روزنامہ زمیندار لاہور، 20 مئی1945
 
۔۔۔۔۔۔ روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 11 تا 14 اگست 2016
ویب سائٹس
5 ۔۔۔۔۔۔۔۔ یونین کونسل دلولہ، قبل از آزادی
6 ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت پیرحقیق اللہ بکوٹی، پہلے ایم ایل اے سرکل بکوٹ
7 ۔۔۔۔۔۔۔۔ قائد اعظم کشمیر میں
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، 14 اگست. 1947